اقوامِ متحدہ تیسری دنیا پر تسلط کا ذریعہ ہے

اقوامِ متحدہ

ہوس ِ ملک گیری میں مبتلا اقوام نے جب اپنی اس طمع، بھوک اور لالچ کو مٹانے کے لیے دوسری کمزور اقوام کی دولت اور وسائل پر قبضہ جمانا چاہا تو دورسری جنگ ِ عظیم کی آگ بھڑک اُٹھی۔ ان دادا گیر اقوام نے جب ان کمزور اقوام کو اس آگ میں دھکیلا تو ظالم آگ کے شعلوں نے نہ صرف ان کمزور اقوام کو جلا کر بھسم کر ڈالا بلکہ ان دادا گیر اقوام کو بھی نگل لیا۔ اور یوں ایک آگ کے سرد ہونے تک کروڑوں انسان دست و پا سے محروم اور لاکھوں کو موت کے بے رحم ہاتھوں نے مسل ڈالا۔ دی نیشنل ورلڈ وار ٹو میوزیم کے مطابق صرف جرمنی کے 5.5 ملین فوجی اور تقریبا8 ملین سویلین ہلاک ہوئے، برطانیہ کے تقریبا 4ملین فوجی اور 4.5ملین سویلین، سویت یونین کے تقریباََ 10ملین فوجی اور 24ملین سویلن، چین کے تقریباََ 4ملین فوجی اور 20ملین سویلن، روس کے 11ملین فوجی اور 7 ملین سویلین، جاپان کے 1.3 ملین فوجی اور 6.7 ملین سویلین، امریکہ کے 4ملین فوجی اور تقریباََ 4ملین سویلین کو ملا پوری دنیا میں تقریباََ ساڑھے آٹھ کروڑ لوگوں کو موت نے کچل ڈالا۔تب کہیں جا کرجنگ کے تباہکاریوں اور ہولناکیوں سے خوف زدہ ہو کر یہ باہر سے شیر اور اندر سے مکار، لالچی اور فریبی اقوام سر جوڑ کر بیٹھ گئیں کہ آئندہ اس تباہی و بربادی سے بچنے کے لئے کوئی تدبیر کی جائے۔ اورپھر یوں۔۔

اقوامِ متحدہ کب بنی اور ویٹو پاور کیا ہے؟

چوبیس اکتوبر 1945کو سان فرانسسکو میں اکاون ممالک کی اقوام اکٹھی ہوئیں اور اس مقصد کے لئے اقوام متحدہ کے نام سے ایک ادارہ تشکیل دیا۔ اس ادارے کا بڑا مقصد آئندہ کے لئے امن قائم رکھنا اور جنگ کو روکنا تھا۔ مصیبت یہ تھی کہ وہ بدمعاش اقوام جو براہ راست جنگِ عظیم دوم کا حصہ تھیں، نہ صرف اس ادارے میں شامل تھیں بلکہ وہی ممالک اس ادارے کے کرتا دھرتا بن گئے۔اقوام ِ متحدہ کے ذیلی ادارہ ”سکیورٹی کونسل“ کے نام سے تشکیل دیا گیا جس کے 15ارکان ہیں جن کا کام امن قائم رکھنا اور جنگ کو روکنا ہے۔وہی 4 ممالک امریکہ، برطانیہ، فرانس اور روس اسکے مستقل ارکان بنے جو جنگِ عظیم دوم کا باعث تھے اور بعد میں چین کو پانچویں مستقل رکن کا درجہ ملا اور یوں 5 مستقل ارکان اور 10 غیر مستقل ارکان ہیں جو مختلف اوقات میں 2سال کے لئے منتخب کئے جاتے ہیں۔ کسی مسئلہ کے فیصلے کے لیے 9 ارکان کی حمائت حاصل ہونا ضروری ہے لیکن اگر ان 5چوہدریوں میں سے کوئی ایک بھی معاملہ کی مخالفت میں ووٹ دیتا ہے یعنی ویٹو کا حق استعمال کرتا ہے تو معاملہ پھر کھٹائی میں پڑ جاتاہے۔گویا ویٹو کا حق اپنے پاس رکھ کر ان ظالم اقوام نے دوبارہ ظلم و جبر اور تسلط قائم رکھنے کی طاقت اپنے پاس رکھی۔
اس طرح اقوام ِ متحدہ کا ادارہ وہ طوائف بن گئی جسے جب ان پانچ مستقل تماش بینوں میں سے کوئی ایک بھی چاہے تو وہ ناچنا شروع کر دیتی ہے اور اس ظلم کو ہوا دیتی ہے جو وہ مستقل رکن قوم بپا کرنا چاہتی ہے۔
اقوام متحدہ کے چارٹرکے تمام آرٹیکلز پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو اقوام متحدہ بظاہر اقوام ِ عالم کے درمیان صلح و آشتی کو پھیلانے کے لئے، امن و مفاہمت کو ترقی دینے کے لئے، ممالک کے درمیان اقتصادی ومعاشی صورتِ حال کو خوشگوار بنانے کے لئے، دنیا کی اقوام کو جہالت اور نسلی و علاقائی تکبر کے اندھیروں سے نکالنے کے لئے اور علم کی روشنی کو پھیلانے کے تشکیل دی گئی لیکن دراصل اقوام ِ متحدہ مذکورہ ہر چیز کی دشمن ہے۔کیونکہ اقوام ِ متحدہ کے یہ گماشتے جہاں تک انکا جبر و تسلط کام کرتا ہے وہ انسانیت کو کمزور تر کر کے، کمزور اقوام پر اپنی برتری قائم کر کے، دنیا میں امن کی بربادی کر کے، جہالت کے اندھیروں کو وسعتیں دے کر، دنیا کی معیشیت کو گروی رکھ کر،کمزور اقوام کے گلوں میں انکی طاقت سے زیادہ وزنی قرضوں کے طوق ڈال کر۔ انکی تہذیب و ثقافت کو اُجاڑ کر، انکے ذہنوں میں اپنے نظریات ٹھونس کر اور معصوم اقوام کی آستینوں کے سانپ بن کر انہیں ڈس رہے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی سترہ مخصوص ایجنسیوں میں سے دو یعنی آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی غریب ممالک کے خلاف قرض کی ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج

اقوام ِ متحدہ کے یہ دادا گیر مختلف حیلوں بہانوں سے غریب اقوام کے وسائل کو بروئے کار لا کران سے اربوں روپیہ ہتھیا کر اقوام ِ متحدہ کے فنڈز کا بڑا حصہ خود ادا کرتے ہیں اور پھر مختلف اداروں کے ذریعے انہی فنڈز کا پانچ یا دس فیصد تیسری دنیا کے غریب ممالک کی تعلیمی، اقتصادی یا کوئی اور کمی کو پورا کرنے کے لئے انہیں قرض دیتے ہیں۔پھر ان قرضوں کو دوبارہ چھین لینے کی غرض سے، مخصوص شعبہ سے متعلق اپنے نام نہاد ماہرین ان کمزور ممالک میں بھیجتے ہیں جو دئیے گئے 5یا 10 فیصد امداد کا بیشتر حصہ اپنی خدمات کے عوض لے جاتے ہیں۔اور ان پسماندہ ممالک کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ بلکہ یہ قرضے انکے مزید ہولناکیوں کا سبب بنتے ہیں اور وہ دوبارہ ہاتھ جوڑ کر مزید قرضے لینے کے لئے اور اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے انکے سامنے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ اس طرح اقوام متحدہ کا ادارہ اپنے انہی بدمعاش ممالک کو شہ دے کر تیسری دنیا کے ممالک پر تسلط کا ذریعہ بن چکا ہے۔ اور اس کے حقائق باقائدہ آپکے سامنے پیش کر رہا ہوں۔
پہلے آپ یہ جان لیجیے کے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کیا ہیں۔ انٹرنیشنل مونیٹری فنڈزایک بین الاقوامی ادارہ ہے جسکا بظاہر کام دنیا کی معاشی صورتِ حال مستحکم رکھنے میں مدد کرنا ہے۔ جبکہ ورلڈ بنک کا کام بظاہر معاشی طور پر غیر مستحکم اقوام جو کہ زیادہ تر تیسری دنیا سے تعلق رکھتے ہیں کو امداد دیا قرض دینا ہے۔ یہ دونوں ادارے یونائٹد نیشنز یعنی اقوام ِ متحدہ اُن17 خاص ایجنسیوں میں سے ہے جن کو اقوام ِ متحدہ کے آرٹیکل 57اور63کے تحت رجسٹرڈ کیا گیا ہے اور یہ دونوں بنک اقوامِ متحدہ کے ما تحت کام کرتے ہیں
اپریل 2001 کے تیسرے ہفتے کا واقعہ ہے جب امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں عالمی بنک اور آئی ایم ایف کا مشترکہ اجلاس ہوا جہاں امریکی عوام نے ان اداروں کی غیر منصفانہ اور ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف مظاہرے ترتیب دینا شروع کر دئیے۔ان مظاہروں کی شدت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی دارالحکومت کی پولیس کو انہیں روکنے میں ناکام تصور کیا گیا اور فوج طلب کرنا پڑی۔ 

یہی نہیں بلکہ 2023میں مراقش میں ایک بار پھر انہی دونوں اداروں کے خلاف قرض کے ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف احتجاج  ہوئے

امریکہ کا مشہور ہفتہ وار جریدہ ’ٹائم‘ اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے کہ عالمی بنک کی پالیسیوں سے دنیا کے ممالک کو نقصان پہنچانے کی بجائے انکی تکالیف میں اضافہ ہو رہا ہے۔اس رپورٹ میں اقوام ِ متحدہ کے ادارے عالمی مالیاتی ادارے جسے عرفِ عام میں IMFکے نام سے جانا جاتا ہے کو DOCTOR DEATH کے نام سے موسوم کیا ہے۔
اپنی رپورٹ میں وہ لکھتا ہے کہ ان دونوں مالیاتی اداروں نے قرض اور دیوالیہ قرار دینے کی آڑ میں 90 ممالک میں اپنی آزادانہ معیشیت کی پالیسیاں نافذ کیں جس کے ذریعے انکی چھوٹی صنعتیں اور زراعت تباہ کردی۔ یہ عالمی محاجن اس آزاد تجارت کے نام پر ان ممالک کی قومی صنعتوں کو فروخت کروا دیتے ہیں اور غیر ملکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لئے ماحول سازگار بنا دینے ہیں۔اس طرح اپنی پالیسیوں کے ذریعے یہ ظالم درندے تیسری دنیا کے ممالک کی پوری معاشی زندگی کو اپنے اُصولوں کا پابہءِ زنجیر کر لیتے ہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر آئی ایم ایف اقوام ِ متحدہ کی مرضی کے خلاف کوئی پالیسی نہیں بنا سکتا تو اقوامِ متحدہ کا ادارہ کیوں ان ظالمانہ پالیسیوں کو نہیں روک رہا؟

سکیورٹی کونسل گزشتہ کئی سالوں میں مکمل طور پر ناکام کیسے اور کیوں رہا؟

اب بات کرتے ہیں سکیورٹی کونسل کی جو کہ اقوام متحدہ کا سب سے مضبوط ادارہ تصور کیا جاتا ہے اور جس کا کام پوری دنیا میں جیسے بھی ہو امن قائم رکھنا اور جنگ کو روکنا ہے لیکن سیکیورٹی کونسل کی موجودگی میں پچھلے 79 سالوں میں کیا کچھ ہوا اس پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا چاہوں گا۔ جس سے اندازہ ہی نہیں یقین ہو جائے گا کہ اقوام متحدہ اُن داداگیر اقوام کے در کی لونڈی ہے۔
الجزیرہ نیوز کے مطابق پچھلے صرف اکتوبر 2023سے لیکر اب تک اسرائیل نے تقریباََ 46726 بے گناہ اور معصوم فلسطینیوں کو بمباری کر کے شہید کر دیا جبکہ 109,196 معصوم افراد زخمی ہوئے۔ جس میں امریکہ نے اسکا بھرپور ساتھ دیا۔ یہ سب کچھ اقوامِ متحدہ کے ناک نے نیچے ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ مختصر مگر تلخ حقائق آپکے سامنے رکھتا ہوں۔
صرف امریکہ کی بات کریں تو 1950 میں کورین جزیرے پر اپنے ورلڈ آرڈر کو مضبوط کرنے کے لئے لاکھوں کورین لوگوں کو موت بن کر ہڑپ گیااور اقوامِ متحدہ سوئی رہی۔1957 میں 3لاکھ ویت نامیوں کو اپنے درندہ صفت مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا۔1980 میں امریکہ روس کیساتھ چنگ کے لیے افغانستان میں گھس گیا اور لاکھوں لوگوں کی جان لی تو کہاں تھی یہ نام نہاد سکیورٹی کونسل اور اقوام متحدہ؟ 1996 میں امریکہ نے اپنے اسی زر خرید ادارے کے ذریعے عراق پر اقتصادی پابندیاں لگوائیں اور 5لاکھ بچوں کو موت بن کر کھا گیا تو کہاں تھی یہ امن کا راگ الاپنے والی سکیورٹی کونسل؟ 2001 میں افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ 2011سے اب تک سریا میں لاکھوں لوگ مارے گئے، یمن اور لبیا میں 2014کے بعد ہزاروں لوگ موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ 2014سے اب تک روس اور یوکرین کے بیچ تناو میں ہزاروں لوگ مارے گئے۔ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ اور یہ تمام قتل عام اقوام متحدہ کے سائے تلے ہوتا رہا اور اب بھی جاری ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ تمام مظالم ترقی پذیر ممالک پر ڈھائے گئے۔ مشہور ویب سائٹ دی ایکسپریس ٹریبیون نے مارچ 2015 میں ایک رپورٹ شائع کی اس رپورٹ کو نوبل انعام یافتہ تنظیم

International physicians for the prevention of nuclear war

نے ریلیز کیا  جس کے مطابق 2004سے 2015تک امریکا کی نام نہاد وار آن ٹیرر میں پاکستان کے 80000 افرار شہید ہوئے۔ جن میں 48,504 بے گناہ اور معصوم لوگ، 45صحافی، تقریباََ 951 افراد ڈرون حملوں میں اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کے 5498 جوان شہید ہوئے۔ 2016 میں شہید ہونے والے افراد اس میں شامل نہیں ہیں۔اقوام متحدہ کے درندہ صفت ہونے کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جب بون کانفرنس 2011 میں پاکستان نے بائیکاٹ پر اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بانکی مون سے سوال کیا گیا کے آپ امریکہ کی جانب سے پاکستان پر کیے جانے والے ڈرون حملوں کے بارے میں کیا کہیں گے تو انہیں نے جواب دیا “نو کمنٹس” ۔یہ تو تھی ایک مختصر نظر سیکیورٹی کونسل کی کرامات پر۔

انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس کی ساخت کیسے تباہ ہوئی؟

اب بات کرتے ہیں آئی سی جے یعنی انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کی جو کہ اقوام ِ متحدہ کا خاص حصہ ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس عدالت میں چھوٹے بڑے تمام ممالک کو انصاف دیا جاتا ہے۔آئی سی جے میں مقدمہ لے جانے کا طریقہ جو آئی سی جے کی آفیشل ویب سائٹ پر بھی موجود ہے وہ میں بیان کرتا چلوں۔ اگر دو ممالک کے درمیان کو جھگڑا پیدا ہو جائے تو مقدمہ دائر کرنے کے لئے اس ملک کی مرضی بھی شامل ہونی چاہئے جس پر مقدمہ دائر کیا جا رہا ہے بصورت ِ دیگر مقدمہ دائر ہی نہیں کیا جا سکتا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کونسا ملک چاہے گا کے اسکے خلاف مقدمہ دائر کیا جائے؟ اب اگر آئی سی جے میں آنے والے تمام مقدمات کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ایک بھی مقدمہ ایسا نہیں ہے جو کسی تیسری دنیا کے ملک نے کسی ویٹو پاور پر کیا ہو۔ بیشتر مقدمات ایسے ہی ہیں جو کسی طاقت ور ملک نے کمزور ملک پر کئے ہیں کیونکہ اگر وہ کمزور ملک مقدمہ دائر کرنے کی مرضی نہیں دے گا تو اسکا انجام بہت بھیانک ہوگا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اقوام متحدہ کے ماتحت کام کرنے والی یہ نام نہاد عدالت آئی سی جے نے انصاف اس چڑیا کا نام رکھا ہے جو صرف ویٹو پاورز کا طاقت ور ممالک کے پنجروں میں رہ سکتی ہے۔ اور یہ ظالم ممالک اقوام متحدہ کے کندھے پر بندوق رکھ کر تیسری دنیا کے ممالک پر گولیاں برسا رہے ہیں۔

اختتامیہ
ان کارناموں میں بنی نوع انسان کا دشمن ادارہ جس نے تیسری دنیا کے ممالک کی اخلاقی، تہذیبی، سماجی اور معاشی حالت کو اس قدر پتلا کر دیا ہے کہ یہ اقوام غیرت و حمیت سے بیگانہ ہوکر پھر سے انہی ممالک کے در پر بھکاری بن کر کھڑی ہو گئیں ہیں۔ جو اقوام متحدہ کے پالے ہوئے ہیں اور جنکی پوری تاریخ بے گناہ انسانوں کے خون سے اٹی پڑی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں پرشین ایمائر سے لیکر رومن ایمپپائر تک سب ختم ہو گئے۔ فرعون آئے بھی چلے گئے۔ سلطنت عثمانیہ بھی ختم ہو گئی۔۔ یہ دور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور ٓرٹیفیشل اینلٹیلی جنس کا دور ہے۔ اس دور میں طاقت ور وہی رہے گا جو ان تمام علوم میں آگے رہے گا۔ جو زیادہ طاقت ور ہوگا۔ اقوام متحدہ اُسکے در کی لونڈی بن جائے گی۔ ترقی پذیر ممالک پاس ایک ہی راستہ ہے۔۔ اپنی آنے والی نسلوں کی تعلیم کے لیے موجودہ نسل قربانیاں دے۔ ورنہ مستقبل، حال سے بدتر ہونے والا ہے۔

Leave a comment